Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Prof Mohammed Anwar Ullah Anwar Taruf Wa Ghazal

پروفیسر محمد انواراللہ انورؔ

تم خنجر و شمشیر پہ کرتے ہو بھروسہ ۔ہم اہل قلم ہیں ہمیں قرطاس بہت ہے
محولہ بالا شعر پروفیسر محمد انوار اللہ انورؔ صاحب کا ہے جسے ہم ان کی شخصیت کا آئینہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں ’’تھے ‘‘ لکھتے ہوئے قلم میں لرزہ سا طاری ہوتا ہے۔ افسوس کہ گزشتہ اگست میں وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ بہر حال وہ ایک حساس شاعر تھے۔ قلندرانہ طبعیت پائی تھی اور نام و نمود سے دور رہتے تھے۔ انہوں نے عصری کجروی کے خلاف خنجر و شمشیر پر  بھروسہ نہ کر کے قلم کو اپنا ہتھیار بنایا تھا اور اس سے نشتر کا کام لیتے تھے۔ آج کی غیر منصفانہ روش پر ان کا یہ چبھتا ہوا شعر ملا حظہ ہو۔
عدل عنقا ہے تو جلوہ فگن ہے منصف۔ یہ بھی کچھ کم نہیں دروازے پہ زنجیر بھی ہے
پورا نام محمد انواراللہ اور تخلص انورؔہے۔ کڈپہ (  آندھرا پردیش  ) میں ولادت ۱۹۳۸ء؁ کو ہوئی اور اگست  ۲۰۰۹ء؁  میں وفات پائی۔ انگریزی اور سیاسیات میں ڈبل  ایم۔اے تھے۔ انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے سبکدوشی کے بعد خود کو زبان و ادب کے فروغ کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ان کا شعری سرمایہ مجموعہ کلام  ’’شمع حیات ‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آ کر اہل ادب سے خراج حاصل کر چکا ہے ۔ زیر نظر غزل روایت کی پا سداری کے ساتھ ان کے مشاہدات و تجربات کا بلیغ اشاریہ ہے جس سے ان کی صالح فکری بھی مترشح ہے۔
رابطہ۔  معرفت سردار ساحل۔ 3/151کرسچین لین۔ کڈپہ۔ 516001   (اے۔پی )

غزل  

نا آشنائے غم کی کبھی صحبتیں نہ دے
یارب مری حیات کو یہ کلفتیں نہ دے

جن کی لطافتوں میں تجھے بھول جائوں میں
اتنی بھی زندگی میں مجھے راحتیں نہ دے

دل کو گراں لگے نہ کہیں تیری بے رخی
اتنی بھی بے پناہ مجھے چاہتیں نہ دے

میں لطفِ انتظار کا قائل تو ہوں مگر  
اک وقتِ اعتبار تو دے مدتیں نہ دے

اے دل نہ ان سے مانگ ابھی وعدہ یقیں
وہ محو کشمکش ہیں انہیں زحمتیں نہ دے

کچھ حسرتوں کا قتل بھی انورؔ ثواب ہے
یہ سانپ پر خطر ہیں انہیں مہلتیں نہ دے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages