شفیق نظرؔ
آج بھی ہمارے درمیان ایسے شعرا ہیں جنہوں نے ادبی تحریکات اور رجحانات سے اثر نہ لیکر ادب کی صالح قدروں کو حرزجاں بنائے رکھا ہے۔ اسلئے ان کے یہاں انداز میرؔ کی پیروی نمایاں نظر آتی ہے۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاعر بڑا حساس ہوتا ہے اسلئے ارد گرد رونما ہو نیوالے واقعات وسانحات براہ راست اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ شفیق نظر صاحب بھی ایسے ہی حساس فنکاروں میں سے ایک ہیں جن کی بیدار حسیات نے واردات حسن و عشق ہی سے نہیں اپنے خارجی ماحول سے بھی اثر لیا ہے اور اسے اپنی ذہنی کیفیت بناکر ایک عہد شناس شاعر کی حیثیت سے وہ ہمارے سامنے ا ٓئے ہیں۔
گزشتہ جلد میں ان کے سوانحی پس منظر پر تفصیلات پیش کی جاچکی ہیں۔ مختصراً بتادوں کہ اصل نام محمد شفیق عالم ہے اور شعری شناخت شفیق نظر۔ والد مرحوم کا اسم گرامی جناب احمد حسین ہے۔ پرتیلی کٹیہار (بہار) میں ۱۹۴۲ء کو ولادت ہوئی۔ بی ایس سی کرنے کے بعد نجی کاروبار سے وابستہ ہیں ۔۱۹۶۰ء سے شعری سفر کا آغاز کیا۔ ان کا شمار الحاج ظہیر غازیپوری صاحب کے ارشد تلامذہ میں ہو تا ہے۔ چاردہائیوں کے شعری سفر کے دوران اشاعت کلام کے توسط سے ادبی حلقوں میں وہ ایک خاص مقام رکھتے ہیں مگر مجموعئہ کلام کی اشاعت کی جانب ابتک توجہ نہیں دی ہے ۔ زیر نظر غزل ان کی مر وجہ روش سے ہٹ کر عصری تقاضوں سے ہمکنار ہے۔ ان کے گہرے تجربات و مشاہدات کی چھوٹ اسمیں دیکھی جا سکتی ہے۔
رابطہ۔ راکسی ڈرائی کلینر۔ ڈی ایس کالج روڈ۔ محمود چوک۔ کٹیہار۔854105 (بہار)
زندگی کا کوئی کیا دے گا حساب
صفحہ صفحہ دیکھئے اس کی کتاب
یہ کہاوت جاہلوں میں عام ہے
غم غلط کرنے کا نسخہ ہے شراب
عمر کو یونہی گزارا تم نے جب
روز محشر کس طرح دوگے جواب
بٹ گئی آپس میں پوری جائیداد
لوگ پھر بھی ان کو کہتے ہیں نواب
جادئہ منزل نظرؔ ہے پر خطر
سامنے آئے گا اس میں ہر عذاب
No comments:
Post a Comment