یادوں کی دہلیز سے
سید شکیل دسنوی مرحوم
ڈوب گئی اس دل کی کشتی‘ ٹوٹے آشا کے پتوار
ہاتھ میں گاگر‘ چال قیامت‘ اس پہ چھلکتا تیرا روپ
کسی کے دل کی دھڑکن بن گئی تیرے پایل کی جھنکار
بیچ دیا تھا چار آنکھوں کی بات میں پڑ کر دل انمول
جی ڈھونڈے ہے اک گوری کے گاؤں کا میلہ‘ وہ بازار
یاد اسی کی ساتھ نہ چھوڑے پگ پگ تھامے میرا ہاتھ
تیاگ دیا جس ہرجائی کے کارن آخر یہ سنسار
کال اکال سے جیون نیّا چلی ہے کس منزل کی اور
کیا جانیں ہم مورکھ پرانی کون ہے اس کا کھیون ہار
بشکریہ
عبد المجید فیضی(سمبلپور‘اڈیشا)
No comments:
Post a Comment