حقانی القاسمی
نئی دہلی
نئی دہلی
انسانی کائنات کے ہر فرد کے دروں میں ایک آہنگ ہوتا ہے اور اسی آہنگ کا اضطراب اسے اظہار کی راہیں تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ شکیب جلالی کا ایک شعرہے:
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا۔پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
ہر انسان اپنے ذہنی اضطراب و ارتعاشات کو کوئی نہ کوئی شکل ضرور دینا چاہتا ہے۔ اس کی صورت چاہے شاعری /نثر جیسی ہو یا آڑھی ترچھی لکیروں کی طرح ۔آرٹ ہی انسان کی ذات اور ضمیر کو زندہ رکھتاہے۔نیاز بالا پوری کا تخلیقی محرک بھی ان کی ذات میں پلنے والا کرب اورضطراب ہی ہے اور اسی اضطراب سے نجات کی راہ انھوں نے ما بعد الطبیعاتی عمل میں تلاش کی ہے ۔اپنے ایک شعر میں انھوں نے اس جستجو کا جواز بھی پیش کیا۔
خدا نے توڑ دیا ہے مری خموشی کو۔اگر میں شعر نہ کہتا تو مر گیا ہو تا
زندگی جینے کا یہی جذبہ انسان کا رشتہ تخلیقی احساس و اظہار سے جوڑتا ہے۔تخلیق انسان کو حبس‘گھٹن سے نجات دلا تی ہے اور زندگی کے کیف و کم سے روشناس کراتی ہے۔ نیاز بالا پوری کی پوری شاعری حیات کے حر کی عناصر کی جستجو سے عبارت ہے۔ ان کے یہاں جو جذبے کی شدت ہے و ہ کبھی کبھی عروضی زنجیروں کو بھی توڑ دیتی ہے کہ در اصل احساس کی طغیانی کسی قسم کی قید و بند کو برداشت نہیں کرتی۔
نیاز بالا پوری کی شاعری میں پاکیزہ جذبوں کے چراغ جلتے ہیں۔ ان کی شاعری قلب و نظر کی پاکیزگی اور نفس کی طہارت سے روشن ہے۔ان کا پورا شعری سلسلہ مراقباتی کیفیتوں سے جڑا ہوا ہے۔ ذوقِ یقیں سے جڑی ہوئی یہ ایسی شاعری ہے جہاں شکستوں‘ ہزیمتوں اور مایوسیوں کے اندھیرے میں رجا اور امید کے دئیے جلتے ہیں مگر یہ دئیے آنسوؤں کی مٹی سے بنے ہیں۔ وہی مٹی جو عجز و فروتنی کی ایک علامت بھی ہے۔
نیاز بالا پوری کی شاعری میں ایک درد نہاں ہے۔ یہ درد فرد کا بھی ہے‘ اجتماع کا بھی ہے‘ ذات کا بھی ہے‘کائنات کا بھی۔ حزن نیاز کی شاعری کا ایک حرکیاتی عنصر ہے۔یہ اس دکھ کا بیانیہ ہے جو انسانی کائنات سے جڑا ہوا ہے۔
رنج و غم و الم سے گزرنا پڑا مجھے۔ہر گام چیخ چیخ کے رونا پڑامجھے
کہاں ہوتی ہے جرأت ہر کسی میں ۔ہمیں رنج و الم میں بولتے ہیں
مجھے ہنسنا سکھایا ہے کسی نے۔مگر برسوں رُلایا ہے کسی نے
بڑی مشکلوں سے خوشی جو ملی تھی۔مقدر سے نذرِ الم ہو گئی ہے
نیاز کی شاعری میں یہی اشک ہیں جو شبد ستاروں میں ڈھل گئے ہیں اور یہی وہ رنج ہے جس نے ان کے تخلیقی وجود کو زندہ رکھاہوا ہے۔
نیاز بالا پوری نے اپنے شعروں میں اس کائناتی المیے کو بیان کیا ہے جسے آئینۂ ذات میں بھی دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ہر فرد ایک کائناتِ اصغر ہے اور ہر فرد میں ایک کائنات اکبر آباد ہے۔یہ عرفانِ ذات اور معرفت نفس کی شاعری ہے:
آپ اپنا پتہ جو پالیں نیازؔ۔پھر کوئی جستجونہیں ہوتی
اس شاعری میں دعاؤں کی وہ دستک بھی ہے جس سے سارے در کھل جاتے ہیں اور جو انسانوں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔
سب تدابیر کو جدا کر کے۔کام آخر ہوا دعا کر کے
لہو کے اشک بہانے سے بات بنتی ہے۔دعائیں عرش پہ جانے سے بات بنتی ہے
ان کی شاعری میں انسانی اقدار کی شکستگی ‘مردم بیزار معاشرے پر طنز ہے اور زوالِ آدمیت۔رشتوں کے انہدام کے بیان کے ساتھ ساتھ تیرگیٔ حیات کا نوحہ اور باطن کی تاریکیوں کا مرثیہ بھی ہے:
وہ جہالت کا زمانہ اس قدر جاہل نہ تھا۔آدمی کے بھیس میں یوں آدمی قاتل نہ تھا
خلوص‘پیار‘محبت بھلا کے بیٹھے ہیں۔انھیں سے پوچھئے کیا کیا گنوا کے بیٹھے ہیں
جیے ہزار مگر دل میں رہ گئی حسر ت۔ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ ہم جیے کیسے
ایک لمحہ مرے دکھ میں تم نہ رہے۔میں ہمیشہ تمھاری خوشی میں رہا
وفاؤں کے ہم نے دیے بھی جلائے۔مگر زندگی میں اُجالے نہ آئے
جانے کس حال میں پھر لوگ اکیلا کردیں۔بھیڑ ہے بھیڑ فقط کام نکل جانے تک
باہر سے چکا چوند بظاہر ہے یہ دنیا۔صد حیف کہ روشن کبھی باطن نہ ملے گا
برار میں سخن چراغ جلانے والوں میں ایک نام نیاز بالا پوری کا بھی ہے۔ان کا شعری مجموعہ ’’مشت گل‘‘ ان کے جذبات و احساسات کا آئینہ ہے۔ اس میں ان کی ذات کا انعکاس ہے اور کائنات کا عکس بھی۔ وہ جن تجربات و حوادث سے گزرے ہیں انھیں شاعری کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ وہ بنیادی طور پر پاکیزہ طبیعت کے حامل ہیں اس لیے
ان کی شاعری میں نہ حکایتِ گل و بلبل ہے اور نہ ہی داستانِ عشق و محبت۔ یہ مکمل طور پر اصلاحی اور اخلاقی اقدار کی شاعری ہے۔ اس شاعری کی سمت وہی ہے جو خواجہ الطاف حسین حالی نے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘میں متعین کی تھی۔ اس میں سادگی بھی ہے صداقت بھی اور وہ جوش بھی جو قومی اور ملی بیداری کے لیے لازمی ہے۔
نیاز بالاپوری مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں اپنے جذبات اور احساسات کی زنبیل کو اس نسل کے حوالے کردیا ہے جو اس کی روشنی میں اپنی زندگی کی صحیح اور صالح سمتوں کا تعین کرسکتی ہے۔مجھے امید ہے کہ نیازبالا پوری کا یہ شعر ی مجموعہ ’’مشتِ گل‘‘صرف برار نہیں بلکہ برار سے باہر بھی مقبول ہو گا اور ان کی دعا اور دل کی حقیقی روشنی دور دور تک پہنچے گی۔
٭٭٭
(ترانۂ جاوید کا بقیہ)
اور یہ دورباعیاں جس میں آج کی انسانی زندگی کا کرب اور معاشرتی زندگی کی مثبت و منفی سوچ کو درشایا گیا ہے۔
پھیلا ہے جہاں تک آسمان دیکھا۔حیرت کا ہے نشان جہاں تک دیکھا
جس سمت بھی اُٹھی ہیں نگاہیں مری۔دکھ درد کا ہے نشان جہاں تک دیکھا
٭
فردا کے خوابوں کا گھروندا ٹوٹا تھا بھائی پہ اپنا جو بھروسہ ٹوٹا
جامی سہ رہا ہے پہلے کا جواز گر حال سے خود اپنا رشتہ ٹوٹا
عہد حاضرہ کا ننگا سچ بھی ملاحظہ کریں:
اترا ہے زمیں پر یوں ٹی وی کا عذاب۔ لاکھوں بچے ہوئے دنیا میں خراب
یکسوئی سے سب دیکھتے ہیں ننگا ناچ ۔باقی نہ رہا والد و دختر میں حجاب
عورت کی اصل تصویر بھی ملاحظہ ہو:
اللہ نے کیا خوب بنائی عورت۔اوصاف حمیدہ سے و با پر فطرت
مغرب نے مگر اس کیا ہے بے شرم۔وہ گھر نہیں کوٹھے کی ہے ہی زینت
آخر میں دوتین جملے رباعی کے وزن میں کئے گئے جامی ؔ کے تجربات کے تعلق سے عرض کردوں تو بیجا نہ ہوگا ۔جہاں تک سانیٹ اور ترائلے کا سوال ہے یہ دونوں اصناف یورپی ادب سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ان کے لئے کسی بھی بحر میں سرپٹ دوڑنے کی گنجائش بر قرار ہے کہ عروض دانوں نے اس کے لئے بھی مخصوص وزن کی قید نہیں لگائی ہے۔ جہاں تک رباعی کی آزادی کا سوال ہے اس کی قبولیت اور عدم قبولیت کا انحصار عروضیوں کی اجازت پر ہے کہ لنگڑاتی ہوئی رباعی کو وہ کتنا قبول کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اس کی بحر رباعی والی ہی ہے اور وزن بھی ۔مگر کیا ایک مصرعے ہی کے ارکان کی کمی گوارا کر کے وہ آزادی رباعی کو دینے کو آمادہ ہوں گے؟ عبد المتین جامی کی اختراعی کوشش کے لئے میدان کھلا ہوا ہے ۔شرط ہے اپنی اختراعات کو منوانے اور سند دلوانے کی ۔میری نیک خواہشات ۔۔۔۔جامی ؔکے ساتھ ہیں۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment