Breaking

Post Top Ad

Saturday, October 6, 2018

ضیاء رومانی اور ’’ فکرِ امروز‘‘

     ضیاء رومانی اور    ’’   فکرِ امروز‘‘   
ریاست کرناٹک میں کولار ایک ایسی منفردمقدس اور متمول سر زمین ہے ۔جہاں کی معتدل اور پُر بہار آب و ہوا ،سر سبز و شاداب کھیتوں، کھلیانوں سے سجی ،پہاڑی سلسلوں سے گھِری فضا زمانہ قدیم ہی سے صوفیہ کرام ،ادبا و شعراء ،مفکرین اوردانشوروں کی دلچسپی کا مرکز ثابت ہوئی ہے۔ظاہر ہے یہ سر زمین ملک کی سونے کی کان کہلاتی ہے اورتاریخ کے اوراق یہاں کی شان و شوکت اور ادبی خدمات کی قابل فخر داستانیں بیان کرتے ہیں۔اس خوشگوار فضااور زرخیز مٹی نے کئی پر وقارو یادگار ہستیوں کو جنم دیا ہے۔جنہوں نے خدمت قوم وملت اور علم و ادب کو اپنی زندگی سمجھا،عبادت تصور کیااور اپنی ساری زندگی ان مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کر دی اورعالم ذوق کے لئے ایک بہترین نمونہ پیش کیا۔                                            
         

            
محترم ضیاء رومانی کی شخصیت ایسی ہی ایک ناقابل فراموش شخصیت ہے، جنہوں نے خدمت علم و ادب کو اپنامقصد حیات ماناہے۔آپ بہترین اخلاق و کردار کے مالک ہیں۔آپ نے اپنے آبا و اجداد سے پیشہ ء درس و تدریس اختیار کیا،الامین ڈاکٹر ممتازاحمد خان کالج کولار میں آج سے بیس سال بیشتر بطور لکچرار علم معاشیات مقرر ہوے،مسلسل ترقی کے  مدارج پار کرتے ہوئے وہ اب علم معاشیات کے پروفیسر اور وائس پرنسپال کے عہدہ پر فائض ہیں۔ جہاں پرہر سال سینکڑوںطالب العلم آپ سے رہبری پاتے ہیںاور اپنا مستقبل سنوارتے ہیں۔ریاست کر ناٹک کی ایک مائیہ ناز ہستی ،اردو ادیب و شاعرحضرت مولانا شاہ ابولحسین ادیب کے حسب نسب سے آپ کا تعلق ہے لہذا اردو زبان سے محبت اور اس کی خدمت کا جذبہ آپ نے اپنے پُرکھوں سے پایا ہے۔یہ میری خوش نصیبی ہی ہے جوآپ کی شاگردی مجھے نصیب ہوئی۔آج مجھ میں اردو کی خدمت کا جذبہ اور نثر نگاری کا رجحان جو موج زن ہے یہ آپ ہی کی حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کاثمر ہے۔آپ کے شاگردوں اور مداحوں کے لئے یہ نہایت ہی فخر کی بات ہے کہ ۳۰ اکتوبر۲۰۱۰؁ء کوالا مین تعلیم ادارے بنگلور، کی جانب سے’’فاونڈرس ڈے ‘‘ کے موقعہ پر ،عزت مآب گورنر ریاست 
کرنا ٹک،ڈاکٹر ہچ،آر،بھردواج جی نے میرے استاد امحترم ضیاء رومانی کو ان کی بہترین تعلیمی خدمات پرتوصیف نامہ پیش کیا ، ’’بسٹ ٹیچرایوارڈ - ۲۰۱۰‘‘ سے نوازا ،آپ کی گل پوشی کی ،شال اُڑائی ،دس ہزار روپیہ کا چک اورایک خوبصورت مومنٹوعطا کیا ۔                               
الغرض جب آپ نے اپنے  افسانوی مجموعہ  ’فکرِ امروز‘  کی تزئین کاری کی خوش 
خبر ی  سنائی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔میری یہ دیرینہ خواہش تھی کہ میں اپنے استاد محترم ضیاء رومانی کے افسونوں کے متعلق کچھ لکھوں۔ لہذا میں نے  ’فکر ِامروز‘کی ایک جلدلی اور اس میں شامل افسانوں کا بغور مطالعہ کیاتو افسانہ نگاری سے میری دلچسپی اور بڑھ گئی۔۔آپ کا لب ولہجہ اورزبان و بیان اس قدر سلیس و شستہ ہے کہ ہر کوئی چاہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کہ ایک مبتدی اس میںاس کی دلچسپی کا سامان میسر ہے۔ آپ کے انداز بیان کی جازبیت ،اپنائیت اورخیالات کی گہرائی گیرائی اورشگفتگی کا یہ عالم ہے کہ جب ہم آپ کے کسی افسانہ کو پڑھنا شروع کردیں تو اسے مکمل پڑھ لینے تک ہمیں چین نہیں ملتا ۔اس میں شامل موضوعات ہمارے ذہین پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔اس میں اس قدر دلکش پیرائے میں  سماجی  برائیوں کازکرکیا گیا ہے کہ قاری انہیںپڑھنے کے بعد سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔                                                                   
         ’’ فکر امروز‘‘ میں آپ نے اپنے بیس مقبول عام افسانوں کو ایکجا کیا ہے۔اس مجموعہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل ہر افسانہ منفرد انداز میں تحریر کیا گیا ہے اور ہر افسانے میں اصلاحی پہلو پوشیدہ ہے۔افسانوں کے عنوانات اس قدر مختصر اور پُر کشش ہیں کہ وہ خود قاری کو افسانے کو پڑھے کی تلقین کرتے ہیں۔افسانے کی دلچسپی ، اس کی ترتیب اور سلسلہ کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ قاری کو اُس لمحہ تک چین نہیں ملتا جب تک کہ وہ  افسانہ کی تہہ تک نہیں پہونچ جاتا۔ہر افسانہ موجودہ ماحول اور حالات کی آئینہ دار ہے۔اس میں موصوف نے بڑے ہی خوبصورت انداز 
میں سماج کی مختلف برائیوں کی نشاندہی کی ہے۔اس میں مضمر تاثرات اس قدر بار آور ہیں کہ وہ قاری کوسماجی بُرائیوں کے تدارک  اور اصلاح معاشرہ کی فکر کر نے پر مجبور کر دیتے ہیں۔غالباًاسی مناسبت سے آپ نے اس مجموعہ کا نام  ’’فکر امروز‘‘  رکھا ہے۔
ــ’’فکر امروز‘‘ کا آغاز طنز و مزاح سے لبریز  ایک دلچسپ افسانہ  ’’ٹائم پاس‘‘  سے ہوتا ہے۔اس افسانے میں موصوف نے بڑی ہی سادگی سے باتوں ہی باتوں میں بڑی کام کی باتیں بتائی ہیں اس مقصد کے لئے آپ نے ایک انوکھا انداز اپنا یا ہے۔اس میں ایک مغربی تہذیب پرفریفتہ نوجوان کے کردار کی عکاسی کی گئی ہے۔جو اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو سائنسی زاویہ پر پرکھتا ہے۔و ہ مغربی طرز زندگی کا متوالا ہے،اسے فرسودہ اشیا سے اس قدر نفرت ہوتی ہے کہ وہ حتیٰ کہ اپنی ماں کو بھی Out Datedشئے سمجھتا ہے۔افسانے کے کلائمکس پر اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے توہ بہت نادم ہوتا ہے۔یہ افسانہ نوجوانوں کی چشم کشائی کا کام کرتا ہے۔
دوسرا افسانہ  ’’اشارہ‘‘  آج کے کالج کے کلاس روم کی ایک ایسی جھلک دکھاتا ہے۔جہاں سرپھرے طلبا اساتذہ کو کس طرح تنگ کرتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کو کیسے برباد کرتے ہیں؟اس میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ ایک قابل استاد کس طرح اپنے شاگردوں پر گرفت رکھتا ہے؟ اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت کیوں دیتا ہے ؟اورایک آسان اور بلکل سادہ مثال پیش کر کہ طلبہ پر اپنا سکہ کیسے جمالیتا ہے؟
تیسرے افسانے  ’’ڈانواں ڈول‘‘  کا مرکزی کردار ایک اُجڈ ناخواندہ  عورت ہے جو شادی بیاہ کی تقاریب میںجب شریک ہوتی ہے تو وہاں کیسے دوسروں پر اپنی دھاک جمانے کے لئے مانگے کے زیورات ،اور بنائو سنگھار کا سہارا لیتی ہے؟اور جب اپنی بیٹی کو کالج میں دخلہ دلوانے  جاتی ہے تو فیس میں ریایت پانے کے لئے کس طرح
نکمہ روپ دھارتی ہے؟ اور وہ اپنی اولاد کو کیوںاپنے کلچر کی تقلید پر آمادہ کرتی ہے؟تو ایسے خاندان کا مستقبل کس قدر ’’ڈانواں ڈول‘‘ ہوگا؟ یہ قاری ہی خود اندازہ کر سکتا ہے۔
افسانہ  ــــ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘  ایک انگریزی کلچر کے دیوانے ،من چلے نوجوان کے ارد کے گرد گھومتا ہے۔جو خود کو بڑا سمجھدار سمجھتا ہے مگر اپنے نام کے معنی و مفہوم سے نابلد ہوتا ہے۔انگریزی طرز کو وہ اپنی شان مانتا ہے اسے اپنے پسندیدہ کلچر اور امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارہ نہیں ہوتا۔افسانہ کا کلائمکس ایسے نکتے پر ہوتا ہے جہاں صلاح الدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔اسلامی تہذیب کے دلدادہ افراد اس کی ساری غلط فہمیوں کو دور کردیتے ہیں۔
افسانہ  ’’گھر کی لچھمی‘‘  آج کے ماحول کی مناسبت سے آزاد خیالات  اور اندھی تقلید کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔آزادی ِ نسوان کی آڑھ میں عورت کی بے پردگی اور اس کے نقائض اور الم ناک انجام پر روشنی ڈالتا ہے۔
’’اڈوانس بکنگ‘‘  سڑک چھاپ عاشق کے کردار اور اس کی خصلت خبیثہ سے پھیلنے والی معاشرہ کی بدامنی کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
’’مہاپرش‘‘ میں ایک ایسے انسان کی شخصیت کا عکس ہے جو قناعت پسندی کا ایک بہترین نمونہ اور اعلیٰ اخلاق و کردار کا مالک ہوتا ہے۔جو اپنے اپنوں سے لاکھ ظلم سہنے کے باوجود ان سے بچھڑ کر ان کی کمی کا احساس کرتا ہے۔ان کے غموں کو اپنے غم سمجھتا ہے۔جس کی ان نیکیوں کے سبب خدا دنیا میں اسے ایک شاندار زندگی عطا کرتا ہے۔
’’ جوڑا جمتا سو‘‘   میں موصوف نے دکنی مکالموں کا استعمال کر کے افسانہ کو ایک دلچسپ موڈ دے دیا ہے۔جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ایک کامیاب جوڑا وہی ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے جذبات و خیالات کی قدر کرتا ہے۔دُکھ میں اور سُکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتا ہے۔اس افسانہ میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ ازدواجی زندگی کا سُکھ حصول زر سے نہیں بلکہ آپسی اخلاس میں پوشیدہ ہے۔
’’خانہ خراب‘‘  طنز و مزاح کی ایک بہترین مثال ہے۔جوایک بے جوڑ شادی کے سبب 

ایک وسیع النظر تعلیم یافتہ خاوند کی روداد کا مظہر ہے۔جس میں بے حس رشتہ داروں کی آمد سے پیدا ہونے والی بے چینیوں کا عکس پیش کیا گیا ہے اور اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ مہذب لوگوں کی صحبت سکون اور اطمنان توبد تہذیب وبد سلیقہ لوگوں کے تعلقات  پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔
’’ قیامت سے قیامت تک‘‘ بڑی دلکش انداز تحریر ہے۔جس میں نچلے طبقہ کی منظر کشی نہایت ہی متاثر کن ہے۔غریب خاندان کے جھگڑوں اورناخواندہ لوگوں کی زندگی کی عکاسی قاری کو تفریح کے ساتھ اصلاح معاشرہ  کی دعوت دیتی ہے۔
’’ شادی خانہ آبادی‘‘  افسانہ زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کراتا ہے۔ اس سے ہمیںیہ سبق ملتا ہے کہ ہر بہو کو اپنے سسرال میں کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے جوبہو اپنے اچھے چال چلن سے سسرال میں سبھی کا دل جیت لیتی ہے وہی اپنے سسرال میں خوش و خرم زندگی بسر کر سکتی ہے۔ موصوف ہمیں اپنی اس تحریرکے ذریعہ ایک موثر انداز میں اخلاقی اقدار کی عظمت سے روشناس کراتے ہیں۔ویسے آج کل بہت سارے والدین اپنی ادنیٰ سی غلطی سے اپنی بیٹی کا بسا بسایا گھر اُجاڑ دیتے ہیں۔ اس افسانہ کو پڑھنے سے اس امر کا پتہ چلتا ہے ہمیں اپنی زندگی کے مسائل کو حل
 کر نے میں کس قدر ضبط وتحمل اور حکمت ِ عملی کی ضرورت پڑتی ہے؟۔تب ہی تو شادی کوخانہ آبادی کا ذریعہ کہا جاتا ہے۔
’’ پاگل تو نہ کہو گے‘‘  ایک منی افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار ایک پاگل ہے۔جس کے ذریعے موصوف نے سماج میں پنپتے ہوئے جہیز جیسے مزموم رواج کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی تلقین فرمائی ہے۔
’’  وہ کون تھا؟‘‘  یہ افسانہ سسپنس سے بھرپور ہے۔افسانے کا انداز تحریر اس قدر دل پزیر ہے کہ دوران مطالعہ کچھ دیر کے لئے قاری اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ موصوف نے اس افسانے میں زندگی کے کئی نصیحت آموز پہلووٗں کو اجاگر کیا ہے۔یہ نوجوانوں کے لئے ایک سبق آموز تحریر ہے۔جس میں نیکی اور کی روایت کو برقرار رکھنے کی ضرورت اور اخلاقی قدروںکی اہمت پر زور دیا گیا ہے۔
’’کرشمہ‘‘  ایک مایوس عاشق کی زندگی پر منحصر افسانہ ہے۔جو اظہار محبت کی خواہش کو دل میں لئے جیتا ہے۔اس افسانے میں اس حقیقت کو ثابت کر نے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کو اپنی تقدیرپر ایمان لانا چاہے کیوںکہ تقدیر پر انسان کا کچھ بس نہیں چلتا،وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
’’ گلی کی بلا گلے میں‘‘ ایک نہایت ہی دلچسپ افسانہ ہے۔اس میں محترم ضیا رومانی کا اپنا مخصوص اندازافسانہ نگاری کا پتہ چلتا ہے۔جس میں ایک فیملی کی بے راہ روئی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سماجی خلفشارپر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
’’ادھورے سپنے‘‘ ایک رومانی افسانہ ہے جو ایک کم سن جوڑے کے ارد گرد گھومتا ہے۔جس میں کم سنی کے جذبات ،خیالات ،احساسات اور تجربات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
’’ ردعمل‘‘  اس افسانے کا پلاٹ بہت دلچسپ ہے۔اس میں موجودہ زمانے میں رائج سیاست کی پول کھولی گئی ہے۔یہ ایک تجرباتی افسانہ ہے جس میں سیاسی امور کوافسانے میں پہلی بار ایک دلچسپ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔اس کے پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے سائنسی فروغ کے اس دور میں ایک ایسے آلے کی ایجادہو جاتی کہ جس سے موجودہ سیاست دانوں کے دماغ کو با آسانی ٹھکانے لگا یا جا سکتا؟تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کوپوری ایمانداری سے ادا کر نے کے قابل بن جائیں۔الغرض اس افسانے کے ذریعہ موجودہ سیاست دانوں کو آئینہ دیکھانے کی سعی کی گئی ہے۔
’’ امن کی چٹان‘‘  افسانے میں انسان کی خود غرض طبعت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چاہے انسان جتنا بھی سائنسی ترقی کر لے مگر قدرت کے روبرو وہ بے بس ہے انسان اپنی بربادی کا خود ذمہ دار ہے،آخر کارانسان کی اخلاقی گراوٹ اور خود غرضی 
ہی اس کے زوال کا سبب بنے گی۔
’’عید مبارک‘‘  افسانہ میں ایک اوسط گھرانے کے معاشی حالات اور اس کی بہتری کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جس سے ہر کسی کوکامیاب و خوش حال زندگی کے سلیقہ کا سبق ملتا ہے۔
آخر میں آپ نے ایک علامتی افسانہ پیش کیا ہے بعنوان  ’’تلاش گمشدہ‘‘ ۔  اس کے مطالعہ سے قاری کو ایسا لگتا ہے کہ گویایہاں پر اسی کے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے۔اس میں انسان کی اپنی بقاء کے لئے کی جانے والی جد و جہد،اور مسابقتی دور کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جس کے کلائمکس میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی چاہ میں ایک دوسرے کا تعاقب کر رہا ہے۔
’’بھوت بنگلا‘‘ میں ایک دولت کے نشہ میں چور عورت کی عبرت ناک کہانی ہے۔’’ہال ٹکٹ‘‘ میں آج کے کالج کے سرکش نوجوانوں کی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے۔’’ مائنڈ یور وون بزنس‘‘ میں مغربی تہذیب کی یلغار پر روشنی ڈالی گئی ہے جو پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے کی چیز ہے۔
القصہ مختصر ’’ فکر امروز‘‘ میں شامل محترم ضیاء رومانی کے افسانے نہایت ہی دلچسپ ہیں۔جو ہر کسی کو دعوت غور و فکر دیتے ہیں۔لہذامیں موصوف کوآ پ کی اس  دلچسپ پیش کش پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ آپ نے واوقعی موجودہ نسل کے لئے ’’ فکر امروز‘‘ کے روپ میں ایک خوش نما،دلچسپ،اورمفید تحفہ پیش کیا ہے۔جو کہ ان کی تفریح کا سامان بھی مہیا کرتاہے ،ان کی معلومات میں اضافہ بھی کر تا ہے اور ان کاایک بہترین راہ نما بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
  ریشما طلعت شبنمؔ کولاری
 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages