مختار انصاری
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ فن کوئی بھی ہو فنکار کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔شاعری میںاس کے امکانات اور بھی روشن ہیں کیونکہ شاعری کے باطن میں شاعر کی اپنی زندگی سانس لیتی نظر آتی ہے۔مختار انصاری صاحب ایک دکھی انسان ہیں۔ تقسیمِ وطن کے سانحہ نے انکے خاندان کو جو زخم دیئے ہیں آج بھی انکی ٹیس کچوکے لگاتی رہتی ہے۔چنانچہ انکی شاعری میں انکا ذاتی کرب محسوس کیا جاتا ہے۔مگر یہی ذاتی کرب خارجیت کی طرف سفر کرتے ہوئے اجتمائی روپ دھارن کر لیتا ہے۔
پورا نام مختار احمد انصاری ہے مگر ادبی دنیا میں مختار انصاری کے بطور پہچانے جاتے ہیں۔والد بزرگوار کا اسم ِگرامی جناب رحمت اللہ انصاری ہے۔محلہ ڈانڈی پور ڈہرہ ڈو ن میں۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے۔وہ جب ساتویں درجہ میں تھے تو ۱۹۴۷ء کے فسادات میں انکا مکان اور والد کا قمار خانہ تباہ ہو گیا۔فکرِمعاش کی غرض سے انکے والد مع خاندان شیر کوٹ منتقل ہو گئے مگروہاں بات نہیں بنی اور چھ ماہ بعد ڈہرہ ڈون واپس ہو کر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔شعروشاعری کا شوق بچپن سے تھامگر فکرِ معاش کے سبب اس جانب توجہ نہیں دے سکے۔ اب یہ ذوق عود کر آیا ہے تو دس سال قبل اسکا باقائدہ آغاز کیا۔استاد شاعر جناب عبدالقیوم اشرق شیر کوٹی سے شرفِ تلمذحاصل ہے۔شاعری کے علاوہ متعدد ادبی انجمنوں سے وابستہ رہکر اردو زبان وادب کے فروغ کے لیئے بھی کوشاں ہیں۔غزل پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔غزلیں روایتی ہوتے ہوئے بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔زیرِ نظر غزل میں کربِ ذات کا پہلو نمایاں ہے۔
رابطہ۔مکا۔25/9 سنجئے کولونی۔نزد اسلامیہ اسکول۔ اندر روڈ۔ڈہرہ ڈون(اتراکھنڈ)
غزل
داستاں سن کے مری سارا جہاں رونے لگا
ہر کلی رونے لگی ہر گلستاں رونے لگا
سنگ دل وہ تھا اسے آیا نہیں مجھ پہ ترس
میری بربادی جو دیکھی آسماںرونے لگا
حادثوں کی داستاں میں نے کہی جب شعر میں
سنگ دل نے جب سنا میرا بیاں رونے لگا
میں نے دکھ جھیلے ہیں اتنے انتہا جسکی نہیں
لکھتے لکھتے زندگی کی داستاں رونے لگا
دیکھ کر اپنوں کا خوں آنکھیں چھلکنے جب لگیں
یہ زمیں رونے لگی اور آسماں رونے لگا
جل گیا مختار ؔجب نفرت کے شعلوں میں مکاں
خوش ہوئے دشمن تو میرا مہرباں رونے لگا
No comments:
Post a Comment