جس نے لکھا ہے ٹوٹتی قدروں کا مرثیہ
وہ مل گیا کبھی تو کہوں گا کہ شکریہ
بے سمت ہورہے ہیں یہ احساس ہے مگر
جاتے ہیں اس سڑک پہ کئی لوگ شوقیہ
ہرایک کے عیوب بیاں کررہا تھا وہ
آیا جب اس کا نام ہوا تنگ قافیہ
مدت ہوئی رگوں میں لہو کو جمے ہویے
کیسے کہوں کہ فکر کا بدلے گا زاویہ
برسوں کے بعد ہم سے مخاطب ہوا ہے وہ
خدمات اپنی اب وہ گنایے گا شرطیہ
امیدؔجس کی بات سے ہم متفق نہیں
یہ کیا ضرور نام بھی لیں اس کا طنزیہ
ڈاکٹرعلی عباس امید
Doctor'sColony.EidgahHills
Bhopal-462001(M.P)
No comments:
Post a Comment