غزل
کس کی یادوں کا تسلسل ہے دلِ شوریدہ
ایک لمحے کو بھی خاموش نہیں رہتا ہے
آخری عمر میں دیکھا جو اسے چونک گیا
کیا کوئی اتنے برس تک بھی حسیں رہتا ہے
دل کہ تسلیم نہیں کرتا ہے فرقت تیری
مجھ کو سمجھاتا ہے اکثر تو یہیں رہتا ہے
کارفرما مرے ہونے میں ہے اس کا ہونا
گو کسی اور کا ہے اور کہیں رہتا ہے
دسترس میں مری آئے تو وہ آئے کیسے
جو فقط حدِ تصور کے قریں رہتا ہے
آشنائی کا مرض اس کو لگا ہے شاید
یہ جو اک شخص بہر لحظہ حزیں رہتا ہے
کیوں سمجھتا نہیں جذبات مرے اندر کے
میری ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں رہتا ہے
مجھ پہ اک شہر کے در بند ہیں فاضل پہ وہ شخص
ان دنوں سننے میں آیا ہے وہیں رہتا ہے
فاضل میسوری
No comments:
Post a Comment