Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Qadar Zaheer Ghazal Aur Taruf

قادر ظہیر

تمل ناڈو کے اکابرینِ ادب میں حضرت قادر ظہیر صاحب کا شمار  صفِ اول کے قلمکاروں میں کیا جاتا ہے۔خاص کر رباعی میں انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ غزل‘حمد‘نعت ومنقبت بھی  بڑے معرکہ کی کہتے ہیں۔ان کی شعری ہنر  مندیوں کے اعتراف میںعلیم صبا نویدی صاحب رقمطرازہیں؛’قادر ظہیر کی بہترین لفظیات اور ان کے خیالات کے ساتھ ان کے شعری اسلوب سے یقینا ان کو ان معدودِچند شعرا میں مقام ملتا ہے جس کو پانے کے بعد امر بن گئے ہیں۔تمل ناڈو میں آج لے دیکر چند ایک ہی اساتذۂ کرام ملتے ہیںاور غالباً اس دور میںآپ جیسے قادر الکلام شعرا بہت کم ہیں‘‘۔
اصل نام عبد القادر ہے اورقاد ر ظہیر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں معروف ہیں۔والدِ مرحوم کا اسمِ گرامی عبدالرؤف ہے۔ ان کے برادرِ گرامی حضرت عبدالمناف برتر مدراسی ایک بلند پایہ رباعی گو شاعر تھے۔ویلور میں ظہیر صاحب کی ولادت ۵؍جولائی ۱۹۲۶؁ء کو ہوئی۔طالب علمی کے دور سے شعر کہنا شروع کیا۔حضرا ت فضل القیوم صدیقی اور علی خاں حیدر سے شرفِ تلمذ حاصل رہا۔انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔PWDمیں انجینیر کے عہدے پر فائز ہوے او ر چیف انجینیر کے عہدے تک ترقی کرکے سبکدوشی ہوئی۔شعری سفر  چھ دہائیوں پر محیط ہے۔ایک نعتیہ مجموعہ’الطافِ آغوش‘ کافی مقبول ہوا ہے۔ زیرِ نظر غزل عصری تناظر میں ان ناہمواریوں کا بیانیہ ہے جن کی وجہ سے صالح قدریں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔
رابطہ:۔ No.1-4فرسٹ اسٹریٹ۔تھرڈ مین روڈ۔سی۔آئی۔ٹی نگر۔600035


گرا جو تیری نظر سے تو اس کی وقعت کیا
گرا جو پھول شجر سے چمن میں قیمت کیا

سہارا لیکے امارت کا بیکسوں پہ ستم
اسی کا نام جہاں نے دیا شرافت کیا

جہاں میں بکتی ہے شہرت اگر خرید سکو
کمالِ فن کی ہے آج قدر وقیمت کیا

اٹھاکے رکھ ترے ان قہقہوں کو کبک دری
تجھے خبر بھی ہے شاہیں کی ہے شرارت کیا

ہنر عظیم ہے محنت کی نان میٹھی ہے
پسینہ گر نہ بہے رزق میں ہے لذّت کیا

درندے خون پیئیںیہ درندگی ان کی
ہے آدمی میں کہیں آج آدمیت کیا

خلوصِ زہد وعبادت کی داد دے یارب
کبھی یہ ہم  نے نہ پوچھا ہے تیری جنت کیا

نشانِ سجدہ کی تابش پہ شیخ کیوں غرّہ
دکھا  تودل ترا دیکھیں ہیں تیری نیت کیا

ظہیرؔ فرطِ گنہ پہ یہ اشک باری کیوں
تجھے خبر بھی ہے اللہ کی ہے رحمت کیا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages