Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Ameen Jami Ghazal Wa Taruf

امین ؔجامی

مملکتِ شاعری میں ایسے لوگوں کی مثال بہت کم ہے جو شاعری کے ساتھ فنونِ لطیفہ کی بیشتر اصناف پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔امین جامی صاحب ایسی ہی باکمال شخصیتوں میں سے ایک ہیںجن کو بیک وقت   شاعری‘موسیقی‘ مصوری اور آرٹ میں مہارت حاصل ہے۔طالب علمی کے دور میں ان کا پہلا شوق موسیقی تھا۔مگر والدِ محترم کے اعتراض پر اسے ترک کرنا پڑا۔پھر مصوری اور آرٹ کی طرف آئے۔اس میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ سند یافتہ نہ ہونے کے باوجودOBMنام کے ایک بڑے ایڈورٹا یزنگ فرم میں کمرشیل  آرٹسٹ کے عہدے پر فائز ہوئے جہاں ۲۶؍سال خدمات انجام دینے کے بعد سبکدوشی ہوئی۔ طغرہ نویسی کے ساتھ چاول اور تل  پرآیاتِ کریمہ لکھنے کےMiniature Artمٰیں بھی قدرت حاصل ہے۔اپنے ذ اتی دکھ درد کا مداوا ڈھونڈنے کیلئے شاعری کو وسیلۂ اظہار بنایا۔اگرچہ کسی استاد سے کسبِ فیض نہیں کرسکے لیکن عمیق مطالعہ اور مشق ومزاولت کے وسیلے اپنی پیش رفت جاری رکھی اور اس فن میں درجۂ اعتبار حاصل کرلیا۔
اصل نام عبد الرحمان ہے اور والدِ مرحوم کا اسمِ گرامی  علی محمد۔پور بندر گجرات میں ولادت ۷؍مئی ۱۹۲۲؁ء کو ہوئی ۔ مذہبی ماحول میں پرورش وپرداخت کے سبب ان کی شاعری میں فکرِ اسلامی‘جذبۂ طہا ت ا ور صالح روایات کی پاسداری نمایاں ہے۔خصوصاً تصوف ومعرفت کا رجحان غالب ہے۔ زیرِ نظر غزل خدا‘ انسان اور کائینات کے حوالے سے ان کے صوفیانہ طرزِ فکر کا عمدہ نمونہ ہے۔(رابطہ..4/3۔ کدم نگر۔بہرام باغ۔ جوگیشوری ویسٹ۔ممبئی۔400102) غزل

کبھی دل لگا دھڑکنے‘ کبھی پاؤں ڈگمگائے
مری بیکسی نے ڈھونڈے تری رحمتوں کے سائے

مری حسرتوں کے مالک‘ رگِ جاں میں بسنے والے
مرا درد وہ نہیں ہے جو تجھے نظر نہ آئے

نہ سخا نہ زہد وتقویٰ‘نہ صلواۃ وصوم وتسبیح
یہ ہے التجا کا دامن‘تپِ غم میں جل نہ جائے

میری زندگی کی خوشیاں تری اک ادا کے صدقے
تری بے نیازیوں میں مری بات ٹل نہ جائے

میرے دل کا ہمسفر ہے تیرا خوشنما تصور
یہی آسرا بچا ہے کہیں یہ بھٹک نہ جائے

یہی اک لطیف سجدہ مری عمر بھر کی کاوش
اسے بھی تو رکھ لے زاہد جو یہ تیرے کام آئے

میں کہاں حقیر وناقص ترے امتحاں کے قابل
مری راہ ارتقا کی تری زد میں آنہ جائے

یہی ہے امینِؔ مضطرمری مغفرت کا ساماں
مجھے دو جہاں کے خالق ترا درد راس آئے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages