Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Sayeef Akhtar Aur Ghazal Goyi

سعید اخترؔ

اڑیسہ کے ادبی منظر نامہ میں سعید اختر صاحب کو ایک معتبر مقام حاصل ہے۔شعری سفر کا آغاز ۱۹۴۷؁ء کے اس بحرانی دور میں کیاجب تقسیمِ ملک کا روح فرسا سانحہ پیش آیا تھا اور نتیجہ میںہر طرف انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ظاہر سی بات ہے کہ ان کی شاعری بھی اس واقعہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔انہوں نے زندگی میں بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ادبی سطح پر مختلف رجحانات اور  تحر یکات سے بھی روبرو ہوئے لیکن ان باتوں سے اثر لئے بغیراندازِ میرؔ کو اپنا شعار بنایا۔اس لئے ان کی شاعری خالص کلاسیکی روایات کی امین نظر آتی ہے‘البتہ مروجہ روایتی لفظیات کو انہوں نے نئی معنویت سے بھی ہمکنار کیا ہے او ر اس طرح روایت اور جدیدیت کی آمیزش سے ان کی غزلیں دوآتشہ  بن گئی ہیں۔
اصل نام سید احمد سعید ہے۔سعید اختر کے قلمی نام سے معروف ہیں۔والدِ مرحوم کا اسمِ گرامی سید ابو سعید ہے۔۳۰؍نومبر۱۹۲۱؁ء کو کٹک میں ولادت ہوئی۔بی۔اے کرنے کے بعد ٹیلکو جمشید پور میںملازمت اختیار کی اور آفیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے تک ترقی کر کے سبکدوش ہوئے۔شاعری کی ابتدا کی تو اولاً مقبول نقش صاحب سے رجوع ہوئے پھر حضرت کیفؔ پرتاپ گڈھی مرحوم کے حلقہِ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔غزل کے علاوہ حمد‘ِنعت‘ منقبت‘نظم اور قطعات بھی کہتے ہیں۔ کبھی کبھار رسائل میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ قلندرانہ طبیعت کے باعث مجموعۂ کلام کی اشاعت کی طرف اب تک توجہ نہیں دی ہے۔وہ جوش ملیح آبادی‘جمیل مظہری‘جرم محمد آبادی اور نواب دہلوی جیسے بلند پایہ شعرا کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کا شرف بھی رکھتے ہیں۔بہار اردو اکادمی‘سواگتیکا(کٹک) اور فیضانِ ادب(کٹ) نے انہیں ایوارڈ سے نوازا ہے۔ زیرِ نظر غزل میں حسبِ معمول جمالیاتی کیف وکم کی چاشنی موجود ہے مگر عصرِ حاضر کی جھلکیاںبھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
رابطہ:۔503ٍ میٹرو اپارٹمنٹ۔ کالی گلی۔ کٹک۔753002(اڑیسہ)
غزل


وفا ومہر کا پیکر مری تلاش میں ہے
مرے وہ خواب کا منظر مری تلاش میں ہے

نشانِ راہ بنی میری آبلہ پائی
 وہ راہ رو ہوں کہ رہبر میری تلاش میں ہے

تلاشِ منزلِ مقصد نہیں شعار مرا
 کہ منزلوں کا مقدر میری تلاش میں ہے

ستم ظریفی قسمت نہیں تو پھر کیا ہے
وہ میرے پاس ہی رہکر میری تلاش میں ہے

یہ بار بار جو اٹھتی ہے مجھ پہ ان کی نظر
یہ ڈر ہے کیا کوئی محشر میری تلاش میں ہے

اگرچہ اس کے مقابل میں ہوں حقیر مگر
 میں وہ ندی کہ سمندر میری تلاش میں ہے

قصوروار ہے اپنی ہی بے حسی ورنہ

 مرے نصیب کا اختر میری تلاش میں ہے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages