Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 15, 2020

سخنِ داؤدی (داؤد محسنؔ کے افسانوں میں تصورِ عورت) Sukhan e da-oodi dawood mohsin ke afsanoun me Tasawwure aurat


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سخنِ داؤدی
       (داؤد محسنؔ کے افسانوں میں تصورِ عورت)

جسیم الدّین شررؔ
بنگلور
سیل : 9845167313

ڈاکٹربی محمدداؤد محسنؔ کی چار کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔(۱) سوادِ شب (۲) نقد اور نظریات (۳)نقد و بصیرت ( ۴) سناٹے بول اٹھے اور جو چار کتابیں زیرِ ترتیب و طبع ہیںان میں سے تین کا موضوع تنقید و تحقیق ہے اور چوتھی کتاب ’’ پریم چند کی منتخب کہانیاں ‘‘ ہے ۔( یعنی کنڑا زبان میں ان کے ترجمے ہیں )
مختلف الجہاد ادبی خدمات کا یہ مختصر و مجمل تذکرہ بھی کسی کو سکّہ بند ادیب ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔جب کہ داؤد محسنؔ شاعر بھی ہیں ، نقد نویس بھی ، افسانہ نویس بھی ، مستزاد یہ کہ ترجمہ نگار بھی ہیں۔
ہر وہ فن کار جو اخلاص سے ادب کی تخلیق یا تخلیص ( اسے تلخیص نہ پڑھا جائے) کرتا ہو قابلِ مبارکباد و لائقِ صد ستائش ہے کہ ’’ نہ ستائش کی تمنّانہ صلہ کی پرواہ ‘‘ بلکہ بے لوث زبان و ادب کی خدمت کرنا کیا قابلِ تعریف عمل نہیں؟ 
البتہ جو ادیب ، ادب کی تخلیق و تخلیص میں مصروف ہو اور ساتھ ساتھ ادب کا خالق اور ادب کا قاری بھی پیدا کرے (بنائے) تو وہ بدرجہا اس سے بہتر ہے۔ 
داؤد محسنؔ کے کاندھے پر ایک بڑے کالج کی پرنسپالی کا بارِ گراں ہے اور وہ ادب کے استاد بھی ہیں۔طلبا کو قرات کے گُر سکھاتے، پڑھاتے اور تخلیقِ ادب کے اسرار و رموز بھی بتاتے ہیں۔استاد اگر کتاب پڑھانے کو کافی سمجھے تو کورا ہے، طالبِ علم کی تہذیب و تطہیر معلم کا فرض ہے۔داؤد محسنؔ کو ان کے افسانو ں میں بھی اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اچھا استاد وہ ہے جو کلاس روم کے باہر بھی علم و اخلاق کے موتی لٹانے میں کنجوسی سے کام لینے کی بجائے انتہائی شفقت و محبت سے ہر ضرورت مند کو اخلاقی باتیں بتاتا ہو ۔موصوف مذکور اپنے افسانوں سے یہی کام لے رہے ہیں۔سماج کا سدھار ان کا مقصد ہے۔حقانی القاسمی نے لکھا ہے کہ۔

’’ اکثر یہی ہوتا ہے کہ اردو سے جڑے ہوئے لوگ زمینی حقیقتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں اور خیالوں میں تاش محل تیار کرتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
لیکن داؤد محسنؔ کو ان زمینی حقیقتوں کا نہ صرف ادراک ہے بلکہ وہ عرصہ سے ان کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔اردو کی بار آوری کے لئے نرم زمین مہیّا کرنے میں لگے ہوئے ہیں بقول پروفیسر م۔ن سعید ’’جن کا طرزِ حیات اردو ہے۔وہ اردو میں سانس لیتے ہیں ،اردو میں دھڑکتے ہیں،اردو نوشی کرتے ہیں،اردو میں سراپا ملفوف ہیں ،ان کی حرکت و سکون اردو ہے،ان کے خواب اردو ہیں ،ان کی جنّت اردو ہے۔وہ اردو کی ہزار شیوہ اداؤں کے قتیل ہیں۔ ‘‘
داؤد صاحب ایک بڑے اور قابلِ قدرفن کارہیں یا اکرام و اعزازکے مستحق بڑے استاد ۔ یہ فیصلہ کچھ آسان نہیں۔موصوف ہر فن مولا قسم کے فن کار ہیں۔اردو ادب کی معروف و مشہور شخصیت پروفیسر م ۔ ن سعید سے ان کو شرف تلمذ حاصل ہے۔ استاد نے جن الفاظ میں شاگرد کو سراہا ہے وہ ان کے لئے سند ہے۔

’’سواد شب‘‘ ان کے شعری ملکہ کا ثبوت ہے تو ’’نقد اورنظریات‘‘ اور’’ نقد و بصیرت ‘‘تبصرہ نگاری کی برہان ، اور’’ سناٹے بول اٹھے‘‘ ان کی افسانہ نگاری کی بیّن دلیل۔
داؤد محسنؔ کے فکری و فنّی اثاثہ میں تنقید و تحقیق کا زیادہ حصّہ ہے ۔ وہ جوہری ہیں اور فن کو پرکھنے کی صلاحیت و لیاقت کا بھرپور سرمایہ ان کے پاس ہے۔
ماہر ِعروض شاعر جس طرح بے وزن شعر کہنے سے محفوظ رہتا ہے اسی طرح ماہرِ تنقید و تحقیق بھی فن کی تخلیق میں خطا و تحریف سے مامون رہتا ہے۔اس لئے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ داؤد محسن ؔ نے حقیقی فن کاری کی ہے۔ ان کا فن کھرے سونے کی طرح ہے۔ان کی ایک کتاب ’’ سنّاٹے بول اٹھے ‘‘ راقم الحروف کے پیشِ نظر ہے ۔اس کتاب میں ان کے پندرہ افسانے ہیں اور سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ان میں پہلا افسانہ ’’ اڑواڑ ‘‘ ہے جو واقعتاً پہلے مقام کا مستحق ہے۔اس افسانہ کا خلاصہ یہ ہے۔    
رامیّا ایک غریب کسان تھا ، بڑی پوجا پاٹ کے بعد اس کے گھر میں ایک بیٹا سری کانت ہوااور ایک بیٹی نرملا پیدا ہوئی۔سری کانت نے بی۔اے میں اول درجہ میں کامیابی حاصل کی۔وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر مجبوری تھی۔ملازمت بھی کوئی نہیں ملی۔لہذا فوج میں بھرتی ہوگیا۔پہلے نرملا کی شادی ہوئی ۔ایک سال بعد قریب کے ایک شہر میںبڑے رئیس کی اکلوتی اور پڑھی لکھی رادھا سے اس کی شادی ہوگئی جن کی دولت مندی کا دور دور شہرہ تھا۔سری کانت شادی کے تھوڑے ہی دنوں بعد دشمنِ ملک کے حملہ میں شہید ہو جاتا ہے۔

حکومت کی طرف سے ایک شاندار جلسہ میں اس کے باپ کو پانچ لاکھ کا چیک ، سونے کا تمغہ اور ایک سر ٹیفکیٹ ملے۔ایک مقامی کمپنی نے رادھا کو دو لاکھ اور ایک دوسری کمپنی نے ایک لاکھ کا چیک دیا ۔چیک لینے کے لئے جیسے ہی رادھا اسٹیج کی طرف بڑھی ، اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر ہر کسی کے منہ میں رال ٹپکنے لگی۔سب کی نظریں اس کے خوب صورت چہرہ اور جوان بدن پر ٹک گئیں۔جب اس نے چیک لینے کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اس شخص کی نظریں رادھا کے جوان ، نرمل ،کومل اور خوبصورت جسم پر ٹہر گئیں، اور باسی کڑی میں ابال آتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
رادھا جو اب تک محبت کی دیوی تھی۔ اپنی خوش کلامی اور حسنِ سلوک سے سسرال اور سب لوگوں کا من موہ چکی تھی۔دھیرے دھیرے بدلنے لگی۔سسر نے تسلّی دی اور سمجھایا تو نہ شرمائی نہ ہچکچائی بلکہ صاف کہہ دیا۔۔۔۔۔۔۔’’ آپ نہیں جانتے بابو جی! مجھے کیا چاہئے۔‘‘
رادھا کو جو چاہئے تھا اس کو پانے کے لئے وہ کھل کو میدان میں آگئی ۔اس کے پیٹ میں سری کانت کا بچّہ تھا۔اس نے اسے پہلے گرا دیا ۔بعد میں گھر کی ساری رقم لے کر فرار ہو گئی۔رامیّاکو ایک دن اس کا ایک دوست تمیّا ملتا ہے۔وہ کہتا ہے ۔’’رامو بھیا ! میں سچ کہہ رہا ہوں، رادھا نے سچ مچ شادی کرلی ہے۔وہ صاحب جو جلسہ میں سری کانت بابو کے نام رادھا کے ہاتھ میں دو لاکھ کا چیک دیئے تھے۔رادھا انہیں کی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تمہاری حالت پر ترس آتا ہے رامو بھیا۔تمہارے بڑھاپے کا وہی ایک سہارا تھی اور اپنے بیٹے کی نشانی تھی۔آخر اسے یہاں کس بات کی کمی تھی ۔بھگوان کا دیا ہوا سب کچھ توتھا ۔تمہیں اس حالت میں ترستا چھوڑ کراسے نہیں جانا چاہئے تھا۔اگر شادی کا اتنا ہی شوق تھا تو بتادیتی۔لیکن ہمارا سماج کب ایک بیوہ کی شادی کے لئے ۔۔۔۔۔‘‘

تمیّا دھیرے دھیرے بول رہا تھا ۔ لیکن رامیّا ۔۔۔۔۔۔وہ تو مر چکا تھا۔
اس افسانہ میں کئی افسانے ہیں بلکہ اس کا ہر کردار ایک افسانہ ہے۔تمیّا جیسا غیر ضروری ( معمولی )کردار بھی بیوہ کی شادی کے تعلق سے جو ادھورا جملہ کہتا ہے وہ بھی ایک ان کہی کہانی ہے۔ یہ افسانہ عورت کی تلّون مزاجی کا نمونہ ہے، سماج کے کھوکھلے پن کا بیانیہ ہے۔گرتی ہوئی قدروں کا مرثیہ ہے، جنسی ہوس پرستی اور بے لگام حرص کا نوحہ ہے۔
رادھا کی نفسیات کا تجزیہ کرنا میرا مقصد نہیں ۔پھر بھی دو تین باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔
(۱) کمپنی کے مالک سے انعام لیتے وقت رادھا کے سرد جسم سے چنگاریاں پھوٹنا اور باسی کڑی میں ابال آتا محسوس کرنا۔ چنگاریاں بجھ نہ جائیں اس لئے پیٹ کے بچّہ کو گرا کر مار دینا۔
(۲) کمپنی کے مالک کی رکھیل بننا ۔ ہندو دھرم میں دوسری شادی کا تصورنہیں ہے۔یہاں فنکا ر سے البتہ سہو ہوا ہے۔( تمیّا جس کی وضاحت کرتا ہے)اور اس کے لئے اپنی اور میکہ اور اپنے سسرالی والوں کے ماتھے پر کالک پوتنا۔
(۳) بے سہار ا بوڑھے سسر ساس کی ساری رقم چرا کر گھر سے چپکے سے بھاگ جانا۔
بچّی ہو یا بچّہ۔ پیا کا پیار ہو یار کا۔پیدا ہونے سے پہلے ہو یا بعد میں۔اس کو گرا کر ختم کرنا اور مارنا قتل ہے۔اگر بد کاری کا نتیجہ ہو تو دہرا پاپ ہے۔ڈبل گناہ۔
اپنا حق وصول کرنے اور اپنا مستقبل بنانے کے لئے دوسرے کا حق مارنا اور دوسرے کا مسقبل تاریک کرنا صحیح نہیں۔اپنا حصّہ سمیٹتے وقت دوسرے کے حصّہ میں انگلی نہیں مارنی چاہئے۔رادھا کو ان آدرشوں پر چلنا نہیں آتا تھا۔کل کی رادھا کرشن بھکتی پر یقین رکھتی تھی ۔آج کی رادھا دھن شکتی اور مستی پر سب کچھ تیاگ دیتی ہے۔

افسانہ ’’ بھوک ‘‘ کا موضوع بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔لیکن ’’ اڑواڑ ‘‘ کی رادھا اور ’’ بھوک ‘‘ کی پیازی رنگ کی ساری والی دوشیزہ میں بہت فرق ہے۔رادھا شوہر کی زندگی میں وفا دار بیوی اور سُگڑ بہو ہے۔شوہر نہیں رہا تو بیوہ بنی رہنا اسے قبول نہیں۔بیوہ پھر بیوی( سہاگن) بن سکتی ہے۔اگر سماج اسے پسند نہیں کرتا تو رکھیل ہی سہی۔مردوں کی پسند ’’ لڑکی‘‘ ہے۔پھر عورت ہے بچّہ کی ماں مرد کے لئے توبہ شکن اور پر کشش نہیں رہتی اس لئے وہ ظلم کی مرتکب ہو جاتی ہے۔
بھوک کی اجنبی دو شیزہ کبھی پیازی رنگ ساری میں پارک میں شکار کرتی ہے تو کبھی گلابی رنگ کی ساری میں ہوٹل کے سامنے۔اس میں شک نہیں کہ اجنبی دوشیزہ کی بھوک انمٹ اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے مگر رادھا سے بہتر ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتی اور کسی کو لوٹتی نہیں۔یہ سب کا کھلونا ہے ، ہر وقت چلتی رہنے والی مشین ہے۔اور وہ رکھ کھیل یعنی رکھ کر آرام سے موقع پر کھیلنے کے لئے ہے۔یہ بھی واسنا کی آگ میں جل رہی ہے مگر فٹ پاتھ کی چیز ہے اور وہ شو روم میں آراستہ شو کیس کا سامان ہے۔

ان دونوں افسانوں کے بر عکس داؤد محسنؔ کا ایک اور افسانہ ’’ مراجعت‘‘ ہے ۔ ’’مراجعت‘‘ کی کہانی اتنی سی ہے کہ شاذیہ مالدار گھرانے کی فیشنیبل لڑکی ہے ۔حامد سے اس کی شادی ہوجاتی ہے مگر شاذیہ اس کو قریب نہیں آنے دیتی ۔کیونکہ مرد کی قربت ، اولاد کو پیٹ میں نو مہینے پالنا ۔پھر ولادت کے مرحلے سے گذرنا۔ بچّہ کو دو ڈھائی برس دودھ پلانا ۔ یہ تصور ہی اس کے لئے سوہان روح ہے۔ اس طرح تو اس کے ’’ فِگر‘‘ کا ستیاناس ہو جائے گا۔ حامد اپنی پرانی محبوبہ کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ شاذیہ اور حامد دونوں میاں بیوی ہونے کا ڈھونگ رچارہے ہیں لیکن دونوں کے جسم اور دل کبھی ایک نہیں ہوئے۔شاذیہ ایک کلی کی مانند تھی جو پھول بننے سے رہ گئی تھی۔اب وہ اپنے جسم کی ٹوٹتی دیواروں میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔شاذیہ کو اب شادی شدہ زندگی کی ضرورتوں اور مانگوں کا شدت سے احساس ہونے لگا۔وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہے اور حامد سے تقاضا کرتی ہے۔’’میں بھی ایک عورت ہوں ۔میرے بھی جذبات ہیں۔یہاں میرا دم گھٹتا ہے ۔میں اس گھٹن سے باہر نکلنا چاہتی ہوں۔مجھے بھی پیار چاہیئے۔میری جھولی میں شوہر کا پیار نہیں۔میں اپنا دامن پسارے ترس رہی ہوں۔‘‘ فوزیہ کے والد کو جب اپنی بیٹی اور حامد کا پتہ چلتا ہے تو وہ اپنی پسند کے ایک لڑکے سے فوزیہ کی شادی کر دیتے ہیں۔حامد زندگی کے صحرا میں اکیلا پیاسا کھڑا ہے۔اب لوٹ کے بدھو گھر کو نہ آئے تو کہاں جائے ۔داؤد محسنؔ کے الفاظ میں’’ بالآخر صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹاکے موافق اپنی شریکِ حیات کے پاس لوٹ آیا۔شاذیہ گویا ایک پیاسا سمندر تھی اس نے حامد کو ہمیشہ کے لئے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔‘‘  شاذیہ جب کہتی ہے ۔’’ مجھے بھی پیار چاہئے ۔ ‘‘ تو وہ رادھا اور پیازی رنگ کی ساری والی اجنبی دوشیزہ کی طرح لگتی ہے ۔لیکن وہ شوہر کی بے رخی کا عذاب جھیلنے کے باوجود وفادار بنی رہتی ہے۔اور پیار کا یہ مطالبہ بھی غیر سے نہیں اپنے شوہر سے کرتی ہے اور اس لئے کرتی ہے کہ وہ کلی تھی اور پھول بننے سے رہ گئی تھی۔یہاں بھی جنس کی گرمی ہے مگر حدود و قیود اور اصول کے دائرہ میں۔داؤد محسن کے خیال میں بسی ہوئی مثالی عورت نہ رادھا ہے نہ اجنبی دوشیزہ ۔وہ دونوں گمراہ ہیں ۔ جن کی اصلاح ناگزیر ہے۔ تہذیب جنس کے نتیجہ میں جو کردار تخلیق پاتا ہے ان کے یہاں اس کا نام شاذیہ ہے۔
زمانہ بے شک رادھا اور بھوکی اجنبی دوشیزہ کا ہے۔لیکن اچھے سماج کو ان کی نہیں، شاذیہ کی ضرورت ہے۔داؤد محسنؔ نے اپنے تینوں افسانوں میں جنسی بے راہ روی کی دونوں شکلوں( افراط و تفریط) کو آشکارا کیا ہے۔ لیکن اقدار و تہذیب کا دامن موضوع کی گرمی میں بھی ان کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں پایا۔

یوں تو کتاب کے سب افسانے منتخب ہیں ۔مگر جو افسانے بہت اچھے ہیں ان میں سے ایک ’’ اشکوں کی بارات ‘‘ بھی ہے۔جس طرح سماج ایک فرد یا ایک صنف سے بنتا نہیں ، اسی طرح بگڑتا بھی نہیں۔رادھا کو کمپنی کا مالک اور اجنبی دوشیزہ کو پارک کے باہر کار والا نہیں ملتا تو سماج اور کلچر کی سیمائیں نہیں بکھرتیں۔مطلب یہ ہے کہ صرف عورتیں اخلاقی گراوٹ کا شکار نہیں ، مردوں کے اخلاق میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ مراجعت میں فوزیہ حامد کو ’’ پیش دستی ‘‘ سے روکتی ہے ۔جب حامد نہیں سمجھتا تو وہ بھی بہک جاتی ہے۔آج تو مردوں کے اخلاق کے دیوالیہ پن کا عالم یہ ہے کہ جس لڑکی پر باپ اپنی رال ٹپکا رہا ہے بیٹے کی بھی رال اسی پر ٹپک رہی ہے۔ 
’’ اشکوں کی بارات‘‘ میں صنف ِ قوی کی اخلاقی بے اعتدالی کا المیہ خاص طور پر پیش کیا گیا ہے۔ حسین عورت اگر بے سہارا بھی ہوتو اس پر کیا گذرتی ہے ’’ اشکوں کی بارات ‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔سخت مجبوری میں زینت ایک گھر میں ’’کا م پر‘‘ لگ جاتی ہے۔وہاں باپ اور بیٹے دونوں زینت کی جوانی اور حسن کے دشمن ہیں۔شادی ہوئی تو شوہر بدمعاش نکلا۔برائی کا راستہ دلدل کی طرح ہوتا ہے جو اس میں چلا گیا وہ نکل نہیں سکتا۔زینت عاصم کو منت و سماجت و نصیحت کرکے برائی سے نکالنا چاہتی تھی۔عاصم بھی آمادہ ہوگیا۔مگر اس کے ساتھیوں نے اس کا قتل کر دیا۔اب ایک طرف جوان کم سن غریب بیوہ زینت ہے۔دوسری طرف ہوس کا مارا معاشرہ ہے۔البتہ ایک اکمل ہے جو اس کو رفیقِ سفر بنانے پر آمادہ ہے ۔زینت مضبوط چٹان کی طرح حالات سے نمٹ رہی تھی کہ ایک دن پڑوسی بھی ’’ مردانگی ‘‘ دکھانے پر اتر آیا۔زینت نے پہلی شادی کے تلخ تجربہ کو بھلا کر اکمل سے شادی کر لی۔لیکن یہ شادی برائے نام تھی۔اصل مقصد زینت کو حاصل کرنا تھا۔بھونرے نے پھول کا رس چوس لیا اور اڑ گیا۔ اس نے دوسری شادی کر لی اور نئی بیوی کے پاس چلا گیا۔

افسانہ کے الفاظ میں’’ زینت کا معاملہ غریب کی جورو سب کی بھابی کے مصداق تھا۔‘‘ یہ محاورہ اس دور کا ہے جب سماج میں شریفوں کی بہتات تھی ۔ان میں سے کسی کی رگِ شرافت پھڑکتی تو کسی غریب کی جورو کو بھابی بنا لیتا اور اس سے ہنس بول لیتا۔ یہ اس دور کی عیاشی تھی۔مالدار کھاتے پیتے شوہر کی بیوی کو بھابی بنانا بھی ان دنوں دشوار تھا۔اب کسی بڑے آدمی سے کوئی کام کرانا ہو تو مالدار شوہر بھی اپنی بیوی کو بطورِ رشوت پیش کرنے میں ذرا نہیں شرماتا۔
آج غریب کی ماں ہو بہن ہوبیٹی ہو یا بیوی ۔سب کی بھابی ہے اور وہ بھی بولنے چالنے اور منہ سے ( زبانی) مذاق کے لئے نہیں۔ یہ دور تو راج دھانی کی سڑکوں پر چلتی بس میں اجتماعی زِنا بالجبر کا ہے۔اب تین چار سال کی معصوم بچّی اور ستر سال کی بڈھی بھی نو جوانوں کی ہوس کا شکار ہیں۔سماج کے وجود ، فرد کی تسکین اور زندگی کے ارتقاء کے لئے جنس ایک لازمی عنصر ہے جس میں اِ فراط مضر اور تفریط موذی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر قلم اٹھائیں تو زہد و اتقاء کے مدّعیان بھی پھیلنے اور پھسلنے میں دیر نہیں لگاتے۔مگر داؤد محسنؔ کا قلم بہکنے سے محفوظ رہا ہے اس کے عوامل کا تذکرہ قلم کار نے صفائی سے کتاب میں کیا ہے۔
مذکورہ چاروں افسانے الگ الگ عنوان سے الگ الگ مقامات پر کتا ب کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔سب کی کہانی مختلف ہے، کردار جدا ہیںاور منظر نامے بھی الگ ہیں۔اس کے باوجود چاروں میں ربط ہے اور ان سب میں قدر ِمشترک ہے ’’ جنس‘‘۔سخنِ داؤدی کا اعجاز یہ ہے کہ چاروں افسانے یکے بعد دیگرے پڑھ جائیے آپ کو ان میں یکسانیت کا احساس تک نہ ہو گا۔

انوکھے البیلے انداز کا افسانہ ’’ اجنبی‘‘ بڑا جان دار و رس دار ہے۔ اس کا ایک کردار اجنبی شخص شروع میں دہشت زدہ کرتا ہے تو درمیان میں (نفرت زدہ کہ ) اس کی حرکتوں پر سب کو غصّہ آتا ہے اور آخر میں حیرت زدہ۔
افسانہ میں کہا گیا ہے کہ ہر عورت ’’سامانِ عیاشی ‘‘ نہیں اور ہر مرد ( خصوصاً جو کسی کو پسند کرے اور بلا وجہ اس کے قریب آنا چاہے) جنسی بھیڑیا اور بلاتکاری نہیں۔
یہ افسانہ بیمار سوچ رکھنے والوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے اور سمجھاتا ہے کہ ہر لڑکی یا عورت کو اپنی محبوبہ یا بیوی مت یقین کر لیا کرو۔کسی سے محبت کرنے اور پسند کرنے کی اور بھی بہت سی بنیادیں ہیں۔ہو سکتا ہے اس کی آنکھ تمہاری بہن جیسی ،اس کے گال تمہاری بیٹی جیسے اور ہونٹ تمہاری ماں کے جیسے ہوں۔ہو سکتا ہے اس میں تمہاری کسی عزیز رشتہ دار کی شباہت ہو ۔
’’ شوہر کا خط بیوی کے نام ‘‘ اور ’’بیوی کا خط شوہر کے نام‘‘ میں ہنستا مسکراتا انداز ہے تو آوارہ کتّے ، دُم دار لوگ اور مچھروں کی کانفرنس میں ہلکا پھلکا، شگفتہ اور تیکھا انداز ہے۔کتنے ہی مسائل جن سے زندگی اور اقدار کی جڑیں کھوکھلی ہو گئیں ۔افسانہ نگار نے ان کو الگ الگ اپنے افسانوں میں اجاگر کیا ہے۔افسانوں کی زبان بھی صاف و شفاف اور نرم رو ہے اور موزونیت اتنی ہے کہ کہیں کہیںان پر نثری شاعری کاگمان ہوتا ہے۔افسانوں کا حجم بھی اپنی حدوں میں ہے ۔مقصدیت، وحدتِ تاثیر اور اثر آفرینی کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ 

اس پر مستزاد یہ ہے کہ مصنف کی گہری بصیرت اور پختہ شعور و ادراک کے جلوے ان افسانوں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔سخنِ داؤدی امید ہے کہ اپنا اعجاز ثابت کرنے میں کامیاب ہوگی۔   



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages