کچھ میں کہنا چاہتا ہوں پر کہا جاتا نہیں
سامنے کاغذ ہے میرے پر لکھا جاتا نہیں
یہ صدی ہے ارتقا کی یا تنزل اس کا بخت
ساتھ ساماں لے کے جائیں یا لٹا دیں اپنا رخت
حاکموں کے ہاتھ میں ہے دین کا رخ موڑنا
کام ان کا منہ شریعت سے سبھوں کا موڑنا
قوم کی حالت بھی اب مغرب زدہ ہونے کو ہے
فردِ ملت اپنی ہر شرم و حیا کھونے کو ہے
قتلِ ناحق کرنے والوں کی ستائش چارسو
کب تلک بہتا رہے گا یوں مسلماں کا لہو
قاتل و مقتول دونوں دینی بھائی ہیں یہاں
ان کے جھگڑوں کو خوشی سے دیکھتا ہے یہ جہاں
خوفِ مولا‘ عشقِ آقا سے ہیں جو ناآشنا
حکمراں بن کر وہی کرتے ہیں ملت کو فنا
مصلحت کے خول میں عالم بھی ہے دانا بھی ہے
سیدھے سادے ہم مسلماں کا کوئی اپنا بھی ہے؟
ہر کوئی اپنی جماعت اب بناتا ہے یہاں
بٹ گئے مسلک میں ہم‘ پیدا ہوئی ہیں دوریاں
ایک دیں ہوتے ہوئے کیوں ہے تضادِ مسلکی
ہم تو بھائی بھائی ہیں کیوں کررہے ہیں دشمنی
جو زمیں صحرا تھی پہلے وہ گلستاں ہوگئی
زندگی جس کی بدولت جب درخشاں ہوگئی
بوالہوس نے اس کو غیروں کے حوالے کردیا
اور بدلے میں خزانہ اپنے گھر میں بھر لیا
عیش و عشرت کے سمندر میں ہوئے غرقاب وہ
اب ابھرنے کی نہیں رکھتے ذرا بھی تاب وہ
جن پہ تکیہ تھا انھوں نے ہی نچوڑا اس قدر
اور نتیجے میں رعایا ہوگئی دستِ نگر
مشرقِ وسطیٰ ہے اب زیرِ نگیں اغیار کے
لوگ بھی کھانے لگے ہیں زخم ان کے وار سے
کربلا کا واقعہ جب جب بھی دہرایا گیا
پرچمِ اسلام اونچا پھر سے لہرایا گیا
انور سلیم
MIGH-58/B,SantoshMagar
Hyderabad-500059
Mob-9573307028
No comments:
Post a Comment