میرا اپنا تجربہ ہے زندگی!
یوں لگے جیسے سزا ہے زندگی!
کربلا جیسی لگی ہے خوں چکاں
جانے کس کی بد دعا ہے زندگی!
کس طرح میں تم کو بتلاؤں میاں
ناگہانی حادثہ ہے زندگی!
یہ سہیلی موت کی ہے سب کہیں
موت سے پھر کیوں خفا ہے زندگی!
سانس بھی خیرات میں ملنے لگی
کیا متاعِ بے بہا ہے زندگی!
عقل سے کہتی ہے یہ چشمِ جنوں
ایک بوڑھی فاحشہ ہے زندگی!
مدتوں سے ساتھ میرے رہتی ہے
کیسے کہہ دوں بے وفا ہے زندگی!
دیر تک رُکتی کہیں پر بھی نہیں
جیسے طوفانی ہوا ہے زندگی!
روح جس میں رات دن جلتی رہی
ایک ایسی ہی چتا ہے زندگی!
خون کے آنسو بہاتے ہیں سبھی
کون ہنستے کاٹتا ہے زندگی!
درد بھی ہے درد کا درماں بھی ہے
ہم نوا کتنی خدا ہے زندگی!
جو غزل میں نے کہی اب تک نہیں
اس غزل کا قافیہ ہے زندگی!
جب بھی جی چاہے اسے دے دوطلاق
بے نکاحی داشتہ ہے زندگی!
سر سے پا تک ہے عقیدہ دیکھئے
پر کہیں سب مرثیہ ہے زندگی!
ابتداء سے انتہا تک اے اثرؔ
حادثہ ہی حادثہ ہے زندگی!
رزاق اثر شاہ آبادیؔ
19-242,Bhandi bazarRoad SHAHABAD-585228-Dist,Gulbarg
![]() |
Mera Apna Tajarba Hai Zindagi Yun Lage Jaise Saza Hai Zindagi |
No comments:
Post a Comment