جدتوں میں بدعتیں روشن ہوئیں
نت نئی سی صورتیں روشن ہوئیں
انتہا شاید محبت کی ہے یہ
جلوتوں میں خلوتیں روشن ہوئیں
بند کمرے کا نظارہ خوب ہے
تیرگی میں نکہتیں روشن ہوئیں
نفرتوں کے دن کو دیمک کھا گئی
بعد مدت چاہتیں روشن ہوئیں
انگلیاں لذت کی وارث تھیں صباؔ
بستروں پر لذتیں روشن ہوئیں
علیم صبا نویدی
192,triplicaneRoad
2ndFloor,FlatNo-16
RiceMandiStreet,Chennai
No comments:
Post a Comment